I read this poem, though it is in urdu but it actually speaks my heart out. Read it and share.
“۔۔۔اگر تم ساتھ نہ دو”
رفیقۂ حیات سے
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
تم آؤ فرض بلاتا ہے
دنیا میں تغیر آتا ہے
ایک طوفاں جوش دکھاتا ہے
اک فتنہ شور مچاتا ہے
ہم لوگ ابھی آزاد نہیں
ذہنوں کی غلامی باقی ہے
تقدیر کی شفقت سے حاصل
تدبیر کی خامی باقی ہے
سینوں کے حرم سُونے ہیں ابھی
امّیدوں سے آباد نہیں
چہروں کی چمک اک دھوکا ہے
کوئی بھی جوانی شاد نہیں
چھوڑی ہیں جڑیں زنجیروں نے
ان میں سے کسی کو نوچیں تو
اعصاب تڑخنے لگتے ہیں
آزادی سے کچھ سوچیں تو
اندام چٹخنے لگتے ہیں
ان زنجیروں کو کیا کیجے!
ہے ان سے گہرا پیار ہمیں
ان زنجیروں کے بجنے کی
لگتی ہے بھلی جھنکار ہمیں
مغرب کے اصولوں کے بندھن
افسوس نہ اب تک ٹوٹ سکے
ہم کہنہ مشق بھکاری ہیں!
مشکل ہے کہ عادت چھوٹ سکے
کب بویا اپنا بیج کوئی
جو نم پائے اور پھوٹ سکے
تقلید کے ایسے خوگر ہیں
آزاد روی سے ڈرتے ہیں
‘معشوق’ جو ہم سے روٹھ گیا
تصویر پہ اس کی مرتے ہیں
اغیار لکیریں کھینچ گئے
ہم لوگ فقیری کرتے ہیں
محنت سے کمائی کی نہ کبھی
خیرات سے جھولی بھرتے ہیں
گو دورِ غلامی بیت گیا
ملت کی خودی کو پیس گیا
ہم جیت کے بازی ہار گئے
اور دشمن ہر گھر جیت گیا
اس حال میں گو مایوس نہیں
بڑھنے کی ہمت کرتا ہوں
پر تم سے بھید چھپاؤں کیا
دل بیٹھ نہ جائے ڈرتا ہوں
اس وقت اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
جو کام ہمارے ذمے تھا
وہ کام ابھی تو باقی ہے
تمہید بہت ہی خوب سہی
اتمام ابھی تو باقی ہے!
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا
انسان بناؤ تم جیسے
تہذیب بھی ویسی بنتی ہے
تہذیب ہے عورت کے بس میں
وہ کیسی نسلیں جنتی ہے
وہ کیسے مرد بناتی ہے
وہ کیا اخلاق سکھاتی ہے
کیا جذبے اکر گھول کے وہ
بچے کو دودھ پلاتی ہے
کس کیفیت کی مستی میں
وہ میٹھی لوری گاتی ہے
گر رنج نہ ہو تو صاف کہوں
یہ تم ہی تو تھیں! کیا بھول گئیں!
خود تم نے نظامِ باطل کو
گودی میں سپاہی پال دئیے
بیداد کی کل یاں کیسے چلی؟
تم نے ہی تو پرزے ڈھال دئیے
ابلیس نے مانگے کارندے
تو تم نے اپنے لال دئیے
تم نے تو کلیجوں کے ٹکڑے
منڈی میں لا کر ڈال دئیے
تم سے جو تقاضے دین کے تھے
افسوس کہ تم نے ٹال دئیے
ہے مرد کی ذمے جتنی خطا
اتنی ہی تو ذمہ دار ہو تم
اب میں کفارہ دیتا ہوں
کیا ساتھ مرے تیار ہو تم؟
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
٭٭٭
لڑنا ہے درونِ در تم کو
بیرونِ در کے فتنوں سے
میں اپنی جان لڑاؤں گا
قلعے کی تم رکھوالی ہو
قلعے سے باہر دشمن پر
دیکھو گی، میں چھا جاؤں گا
تم نسوانیت کو بدلو
احساسِ فرض دلا کر میں
مردوں کو مرد بناؤں گا
تم اچھے پرزے ڈھال کے دو
میں نظم تمدن کی کل کو
پھر دین کے ڈھب پر لاؤں گا
عورت کا تغافل تھا جس نے
ہٹلر، چرچل اور اسٹالن
اس دنیا میں بن جانے دئیے
عیشوں میں یہ ظالم مست رہی
جنگاہ میں خنجر جذبوں کے
سو بار یہاں تن جانے دئیے
ہاتھوں میں لٹیروں کے یونہی
تہذیب کے مخزن جانے دئیے
عورت نے خزاں کے قبضے میں
اخلاق کے گلشن جانے دئیے
ہر جنگ کے پردے کے پیچھے
عورت کی خطائیں رقصاں ہیں
عورت کے تغافل کے مارے
یہ غیر مکمل انساں ہیں
یہ ہر خواہش کے بندے ہیں
اور خواہش ہی میں غلطاں ہیں
افکار پریشان ہیں ان کے
افکار، کہ مار پیچاں ہیں؟
یہ دانش مند درندے ہیں!
افسوس کے ان کے ہاتھوں سے
کتنے ہی گھرانے ویراں ہیں
مستقبل کو ان فتنوں سے
عورت ہی بچانے والی ہے
قوموں کے مٹانے والی ہے
قوموں کے بچانے والی ہے
جس نقشے پر بھی یہ چاہے
نسلوں کو اٹھانے والی ہے
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
زنداں جو فرنگی حکمت کا
دوصدیوں میں تعمیر ہوا
اب اس پر سنگیں پہرے ہیں
یہ ایک اٹل تقدیر ہوا
ہم اس کے نگہباں ہیں خود ہی
ہم آپ ہیں پہرہ دار اس کے
ہم اس کے پجاری ہیں اب تک
گو جا بھی چکے معمار اس کے
اٹھ جان! کہ اپنے آپ سے ہم
اک سخت بغاوت کر دیکھیں
خود آپ ہی اپنے جذبوں پر
اک سخت شقاوت کر دیکھیں
افرنگ نے جانے سے پہلے
یاں انڈے بچے دے ہی لئے
باطل نے وراثت بھی چھوڑی
اور ساتھ ہی وارث چھوڑ دئیے
باہر کے فرنگی بھاگ چکے
اب گھر کے “فرنگی” باقی ہیں
قرآن کے تھے جو لوگ امیں
وہ کفر کی مے کے ساقی ہیں
جس دین پہ ایماں ہے
اس دین کی یہ تذلیل کریں
قرآں کے حقائق کو ظالم
تاویلوں سے تبدیل کریں
کیا ہم یہ سہہ بھی سکتے ہیں؟
کیا ہم چپ رہ بھی سکتے ہیں
اب تم کو، مجھ کو، دونوں کو
ان باطل کے معماروں کی
تعمیروں سے ٹکرانا ہے
اب تم کو، مجھ کو، دونوں کو
طوفانوں سے لڑ جانا ہے
پر تم سے اگر یہ ہو نہ سکے
تو جاؤ الگ ہی بیٹھ رہو
کچھ مجھ پر کرم فرماؤ نہیں
آوارگی و عریانی سے
للہ مجھے بہکاؤ نہیں
خواہش کے کھلونوں سے جانم!
بچوں کی طرح بہلاؤ نہیں
یہ سرخی، غازہ، کاجل کیا!
یہ چوڑی، بالی، چھاگل کیا!
یہ جادو کے سب چھل بل کیا!
آخر یہ ذہنی ہل چل کیا!
کرنوں کی تراوش سے حاصل؟
جلوؤں کی نمائش سے حاصل؟
اس آگ کی بارش سے حاصل؟
جس سیل میں تم بہتی ہو، بہو
پر مجھ کو بہا لے جاؤ نہیں
میں حق کا سپاہی ہوں مجھ پر
جادو کی طرح سے چھاؤ نہیں
سینے کو مرے گرماؤ نہیں
تڑپاؤ نہیں، تڑپاؤ نہیں
جو چاہو کرو آزاد ہو تم!
پر فرض سے میں آزاد نہیں
تم عیاشی کو چاہو تو
فن اس کا مجھ کو یاد نہیں
میں تم کو کروں مجبور تو کیوں؟
جبار نہیں، شداد نہیں
پر تم جو میرا ساتھ نہ دو
کیا یہ مجھ پر بے داد نہیں
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
٭٭٭
میں تنہا بھی بڑھ سکتا ہوں
اور شاید بڑھتا جاؤں گا
میں حق کی خونی راہوں میں
جو چوٹ بھی آئی کھاؤں گا
اللہ سے یہ امید بھی ہے
اک دن منزل کو پاؤں گا
پر کھلتی ہے تنہائی تو!
تڑپاتی ہے یکتائی تو!
للہ! تم اس کا پاس کرو
حساس ہو تم! احساس کرو
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
تن کا تو ساتھ نباہا ہے
کیا من کا ساتھ نباہو گی؟
مجھ کو جو تم نے چاہا ہے
پر کیا حق کو بھی چاہو گی؟
اب آگے ایک دوراہا ہے
اب راہ تمہاری کیا ہو گی؟
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو!
پھر مجھ کو خدا ہی کافی ہے!
گر تم سے رفاقت ہو نہ سکے
تو جذبۂ راہی کافی ہے!
تم لڑنے سے کتراؤ تو
ایمانِ سپاہی کافی ہے!
پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں
تم ساتھ رہو تو بہتر ہے
پیچھے نہ ہٹو تو بہتر ہے!
آگے کو چلو تو بہتر ہے!
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
٭٭٭
احساسِ خودی کی کمزوری!
یہ عذر کے تم اک عورت ہو
تم ہمت ہو، تم قوت ہو!
تم طاقت ہو، تم جرات ہو!
تم اک پُر جوش جسارت ہو
تم اک با رعب شجاعت ہو
تم اک رنگین قیامت ہو
تم عزت، عفت، عصمت ہو
تم عظمت، شوکت، رفعت ہو
تم رحمت، راحت، شفقت ہو
تم نصف انسانیت ہو!
کیا عذر تراشو گی آخر؟
جب حشر میں پوچھا جائے گا
کیا اپنے قویٰ سے کام لیا؟
جب کفر سے دیں کی ٹکر تھی
تو تم نے کس کا ساتھ دیا؟
اس وقت کہو گی کیا بولو؟
ہر عذر کو کانٹے پر تولو!
آنکھیں تو اٹھاؤ، لب کھولو!
اے جان اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا؟
٭٭٭
(نعیم صدیقی)
Oh beloved! If you do not stand with me What will I achieve alone?
You must come, duty calls
Change is coming to the world
A storm is brewing with passion
A turmoil is raising its noise
We are still not free
Mental enslavement remains
Though achieved by destiny’s favor
The imperfection of planning remains
The shrines within our hearts are still empty
Not yet filled with hope
The shine on faces is but a deception
No youth is truly happy
The chains have loosened their roots
If we try to pluck them
The nerves start to strain
If we think of freedom
Our bodies begin to tremble
What to do with these chains!
We have a deep love for them
We find the clinking sound of these chains pleasing
The shackles of Western principles
Alas, have not yet broken
We are experienced beggars!
It’s hard to break this habit
When did we sow our own seeds
That they could get moisture and sprout?
We are such followers of imitation
We fear independent thinking
The ‘beloved’ who abandoned us
We worship its image
Foreigners drew lines for us
We live in poverty
We never earned through hard work
We fill our pockets with charity
Though the era of slavery has ended
It has crushed the self-esteem of the nation
We won the game but lost it
And the enemy won every home
In this state, though I am not hopeless
I strive to move forward
But what can I hide from you?
I fear my heart may falter
If you do not stand with me at this time
What will I achieve alone?
The task assigned to us
That task is still pending
The prelude was beautiful
But the conclusion is still pending!
Oh beloved! If you do not stand with me
What will I achieve alone?
Make humans like yourself
And the civilization will be alike
Civilization is in the hands of women
It depends on how they nurture generations
How they make men
What morals they teach
What feelings they mix into the milk
When they feed their child
In what ecstasy they sing sweet lullabies
If there’s no resentment, let me speak clearly
It was you! Have you forgotten?
You yourself raised soldiers
In the lap of the false system
How did the machinery of oppression work?
You forged its parts
When Satan demanded workers
You gave him your sons
You brought pieces of your heart To the marketplace
The demands of religion from you Alas, you neglected
As much as men are to blame
You are equally responsible
Now I am atoning
Are you ready to stand with me? Oh beloved! If you do not stand with me
What will I achieve alone?
You have to fight within the house
Against the turmoil outside
I will fight with my life
You are the guardian of the fort See,
I will dominate the enemy outside the fort
You change the essence of femininity
By instilling a sense of duty
I will make men out of men
You forge good parts
And I will bring the machinery of civilization
Back on the path of religion
The negligence of women created Hitler, Churchill, and Stalin
They remained immersed in luxury
While knives of emotions clashed in the battlefield
How many treasures of civilization
Did they let slip into the hands of thieves?
Women let the gardens of morals
Fall into the grip of autumn
Behind every war
The faults of women are dancing
Men incomplete because of women’s negligence
Are enslaved to desires
Their thoughts are confused
And thoughts, what a struggle they are!
These wise beasts!
Alas, how many homes
Have they ruined
Women alone can save
The future from these calamities
They can destroy nations
And they can save nations
Whatever design they choose
They can raise generations upon it
Oh beloved! If you do not stand with me
What will I achieve alone!
The prison built by Western wisdom In two centuries
Now has strict guards It has become an unchangeable fate
We ourselves are its guardians
We are now its worshipers
Though its builders are gone
Rise, let’s revolt against ourselves
Let’s show sternness towards our own passions
Before leaving, the West
Left their offspring here
Falsehood left an inheritance
And heirs as well
The foreign West has fled
Now the “homegrown” West remains
Those who were the guardians of the Quran
Are now the bearers of infidelity’s wine They insult the faith they believe in
They distort the truths of the Quran with interpretations Can we endure this?
Can we remain silent? Now you, me, both of us
Have to clash with the builders of falsehood
Now you, me, both of us Have to fight against storms
But if you cannot do this Then sit apart
Do not show mercy to me
Do not mislead me with wandering and nudity
By God, do not tempt me
Do not entice me like children
With toys of desire
What is this makeup, this kajal?
These bangles, earrings, and anklets?
What are these magic tricks?
What is this mental agitation?
Achieved from the radiance of rays?
Achieved from the display of lights?
Achieved from this rain of fire?
In the flood you are flowing in, flow
But do not let me get carried away
I am a soldier of truth, do not overshadow me like magic
Do not warm my heart
Do not make me restless, do not make me restless
Do whatever you want, you are free!
But I am not free from duty
If you desire luxury I do not remember that art
Why should I force you?
I am neither a tyrant nor a dictator
But if you do not stand with me
Isn’t that unfair to me? Oh beloved!
If you do not stand with me What will I achieve alone! ٭٭٭
I can move forward alone
And perhaps I will keep moving forward
In the bloody paths of truth
I will endure every blow
I have hope from God That one day
I will reach my destination
But loneliness opens up! Oneness torments!
For God’s sake! Have some regard for it
You are sensitive! Be sensitive! Oh beloved!
If you do not stand with me
What will I achieve alone!
You have kept your body together
Will you keep your soul together?
You have loved me But will you love the truth as well?
Now ahead is a crossroads What path will you take?
Oh beloved! If you do not stand with me!
Then God alone is enough for me!
If you cannot accompany me
The spirit of a traveler is enough!
If you avoid fighting
The faith of a soldier is enough!
Still, I say to you It is better if you stay with me
It is better if you do not retreat!
It is better if you move forward!
Oh beloved! If you do not stand with me What will I achieve alone! ٭٭٭
The weakness of self-awareness!
This excuse that you are just a woman
You are courage, you are strength!
You are power, you are bravery!
You are a fervent audacity
You are a majestic bravery
You are a colorful apocalypse
You are honor, chastity, purity
You are greatness, might, elevation
You are mercy, comfort, affection
You are half of humanity!
What excuse will you make at last?
When questioned on the Day of Judgment
Did you use your abilities?
When faith clashed with disbelief
Whose side did you take?
What will you say then? Speak up!
Weigh every excuse on the scales!
Lift your eyes, open your lips!
Oh beloved, if you do not stand with me
What will I achieve alone?
Naeem Siddiqui
Nice poem